ایک متکبر گورنر کا عبرتناک انجام

اہلِ مکہ نے پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کونیست و نابود ہوتے دیکھا! گورنر تو گورنر ہوتا ہے، چاہے کسی ملک کا بھی ہو۔یہاں جس گورنرکاذکرہے ، اس کا نام تھا ابرہہ۔ ملک یمن میں اسے حبشہ کے بادشاہ نے گورنر مقرر کیا تھا۔ اس وقت جمہوریت نہیں تھی اور نہ ہی جماعتیں ہوتی تھیں کہ قومی خزانہ لُوٹ کھسوٹ کر اپنے بینک بھریں۔ لیکن اس وقت بینک بھی نہیں تھے۔ابرہہ نے دیکھا کہ ہر سال لوگ بیت اللہ کا حج کرنے ملک عرب کے شہر مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔ ابرہہ نے سوچا کہ کیوں نہ وہ بھی ایسا ہی عبادت خانہ بنائے۔ لوگ دور دور سے آئیں گے او ریوں اس کی مشہوری ہوگی ۔ ٹیکس لگائیں گے تو آمدنی بھی ہوگی۔ ہر دور کے لٹیروں کی سوچ یہی رہی ہے۔اب ابرہہ نے کثیررقم خرچ کرکے بڑا ہی خوبصورت عبادت خانہ صنعا شہر میں تعمیر کرایا۔ اس نے لوگوں کو حکم دیا کہ ہر سال وہاں آئو۔ لوگ کسی گورنر کے حکم پرتوعبادت نہیں کرتے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ کسی من چلے نے اس نقلی معبد میں غلاظت پھیلادی۔اسی دوران ایک عرب قافلہ صنعا کے باہر ٹھہرا۔سوئے اتفاق کھانا پکانے کی وجہ سے ایندھن کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ عمارت آگ کی لپیٹ میں جل کر راکھ ہوگئی۔اس پر گورنر ابرہہ مشتعل ہوا۔ سخت طیش میں اس نے سوچا کہ عربوں کا خانہ کعبہ ڈھا دیا جائے۔
یہ خیال آتے ہی وہ فوج کے ساتھ ہاتھی لے کر مکہ کی طرف بڑھا۔ ہمارے رسول پاک سیدنامحمدﷺ کے دادا سردار عبدالمطلب اس زمانے میں خانہ کعبہ کے متولی تھے۔ انھوں نے حملے کی خبر سنی تو تباہی سے محفوظ رہنے کی خاطر اہلِ مکہ کو لے کر پہاڑ پر چڑھ گئے۔اتفاق یہ ہوا کہ سردار عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ کے سپاہیوں نے پکڑ لیے۔ انہوں نے ابرہہ سے جا کر اپنے اونٹ مانگے تو وہ بڑا حیران ہوا۔ اس پر آپ نے فرمایا ’’اونٹ اللہ کے فضل سے ہمارے ہیں لہٰذا وہی واپس طلب کر رہے ہیں۔ خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے، وہی اس کی حفاظت کرے گا۔‘‘بہرحال ابرہہ حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھاتو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ بھیجے جنھوں نے اپنی چونچوںاور پنجوں سے فوج اور ہاتھیوں پر کنکر برسائے۔ اللہ کی قدرت ہر کنکر سے فوجی اور ہاتھی یوں مرا جیسے مشین گن سے چھلنی کردیا گیا ہو۔یہاں تک کہ سوائے ایک سپاہی کے کوئی فوجی اور ہاتھی نہ بچا۔ اس آخری سپاہی نے بھی جب جا کر سارے لشکر کی بربادی کی خبر دی، تو اس کے سر پرمسلط پرندے نے کنکر گرایا ۔ وہ بھی ہاتھی سمیت اس طرح ہوگیا جیسے کھایا ہوا بُھس ریزہ ریزہ ہو جائے۔اللہ نے اپنے گھر کے دشمن تباہ کرنے کے لیے نہ فوجیں بھیجیں نہ لشکر، نہ ہاتھیوں کے مقابلے کے لیے ہاتھی، بلکہ پرندوں سے اسے بُرے انجام سے دوچار کرکے نافرمانوں اور باغیوں کو پیغام دیا کہ وہ خدائی لشکر کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔یہ عبرت نام واقعہ اتنا عام ہوا کہ عرب اسے ہاتھیوں والا سال (عام الفیل)کہنے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ختم نبوت کے تاجدار امام الانبیاء سیدنا محمدﷺ کی پیدائش مبارک سے پچاس دن قبل پیش آیا تھا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ آنے والی مبارک ہستی کے دشمنوں کو اللہ اسی طرح نیست و نابود کرتا رہے گا۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ نے اپنے محبوب پاکؐ کا کلمہ بھی نصیب فرمایا اور اُن کے ذریعے قرآن مجید جیسی آخری مبارک آسمانی کتاب عطا فرمائی تاکہ ہم اس پر عمل پیرا ہو کر دُنیا و آخرت میں کامیاب ہوں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نہ قرآن پاک تلاوت کرتے نہ عمل پیرا ہوتے ہیں ۔اسی باعث ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں۔ اللہ ہمیں پکا مسلمان ، سچا پاکستانی اور بہت ہی اچھا مومن بنائے۔ (آمین)قرآن مجید نے اس دل چسپ، عبرت ناک اور وحشت اثر واقعے کو سورہ الفیل پارہ ۳۰ میں بیان فرمایا ہے۔ دشمنوں نے پورا زور لگایا کہ اسلام کو پھیلنے نہ دیا جائے۔ تب اللہ نے اپنے محبوب پاکﷺ کو یوں دلاسا دیا اور دل جوئی کی:’’کیا آپؐ نے نہیں دیکھا کہ کس طرح کا سلوک کیا ہم نے ہاتھیوں والوں سے(۱) اور ہم نے اُن کے دائو کو برباد نہ کردیا۔ (۲) اور ہم نے بھیجے ان پر پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ (۳) ہم نے گرائے ان پر کنکر پتھروں کے (۴) پس اس نے کردیا انہیں کھائے ہوئے بھس کی مانند (۵) آج اسی انجام سے دوچار ہونے والے ہیں اللہ کے باغی بشرطیکہ ہم صحیح ایمان والے بن جائیں‘‘۔نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زنپھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا گورنرگورنر کا عبرت ناک انجامجب اہلِ مکہ نے پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کونیست و نابود ہوتے دیکھا!پروفیسر ڈاکٹر محمد مزمل احسن شیخ تو گورنر ہوتا ہے، چاہے کسی ملک کا بھی ہو۔یہاں جس گورنرکاذکرہے ، اس کا نام تھا ابرہہ۔ ملک یمن میں اسے حبشہ کے بادشاہ نے گورنر مقرر کیا تھا۔ اس وقت جمہوریت نہیں تھی اور نہ ہی جماعتیں ہوتی تھیں کہ قومی خزانہ لُوٹ کھسوٹ کر اپنے بینک بھریں۔ لیکن اس وقت بینک بھی نہیں تھے۔ابرہہ نے دیکھا کہ ہر سال لوگ بیت اللہ کا حج کرنے ملک عرب کے شہر مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔ ابرہہ نے سوچا کہ کیوں نہ وہ بھی ایسا ہی عبادت خانہ بنائے۔ لوگ دور دور سے آئیں گے او ریوں اس کی مشہوری ہوگی ۔ ٹیکس لگائیں گے تو آمدنی بھی ہوگی۔ ہر دور کے لٹیروں کی سوچ یہی رہی ہے۔اب ابرہہ نے کثیررقم خرچ کرکے بڑا ہی خوبصورت عبادت خانہ صنعا شہر میں تعمیر کرایا۔ اس نے لوگوں کو حکم دیا کہ ہر سال وہاں آئو۔ لوگ کسی گورنر کے حکم پرتوعبادت نہیں کرتے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ کسی من چلے نے اس نقلی معبد میں غلاظت پھیلادی۔اسی دوران ایک عرب قافلہ صنعا کے باہر ٹھہرا۔سوئے اتفاق کھانا پکانے کی وجہ سے ایندھن کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ عمارت آگ کی لپیٹ میں جل کر راکھ ہوگئی۔اس پر گورنر ابرہہ مشتعل ہوا۔ سخت طیش میں اس نے سوچا کہ عربوں کا خانہ کعبہ ڈھا دیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی وہ فوج کے ساتھ ہاتھی لے کر مکہ کی طرف بڑھا۔ ہمارے رسول پاک سیدنامحمدﷺ کے دادا سردار عبدالمطلب اس زمانے میں خانہ کعبہ کے متولی تھے۔ انھوں نے حملے کی خبر سنی تو تباہی سے محفوظ رہنے کی خاطر اہلِ مکہ کو لے کر پہاڑ پر چڑھ گئے۔اتفاق یہ ہوا کہ سردار عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ کے سپاہیوں نے پکڑ لیے۔ انہوں نے ابرہہ سے جا کر اپنے اونٹ مانگے تو وہ بڑا حیران ہوا۔ اس پر آپ نے فرمایا ’’اونٹ اللہ کے فضل سے ہمارے ہیں لہٰذا وہی واپس طلب کر رہے ہیں۔ خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے، وہی اس کی حفاظت کرے گا۔‘‘بہرحال ابرہہ حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھاتو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ بھیجے جنھوں نے اپنی چونچوںاور پنجوں سے فوج اور ہاتھیوں پر کنکر برسائے۔ اللّٰہ کی قدرت ہر کنکر سے فوجی اور ہاتھی یوں مرا جیسے مشین گن سے چھلنی کردیا گیا ہو۔یہاں تک کہ سوائے ایک سپاہی کے کوئی فوجی اور ہاتھی نہ بچا۔ اس آخری سپاہی نے بھی جب جا کر سارے لشکر کی بربادی کی خبر دی، تو اس کے سر پرمسلط پرندے نے کنکر گرایا ۔ وہ بھی ہاتھی سمیت اس طرح ہوگیا جیسے کھایا ہوا بُھس ریزہ ریزہ ہو جائے۔اللہ نے اپنے گھر کے دشمن تباہ کرنے کے لیے نہ فوجیں بھیجیں نہ لشکر، نہ ہاتھیوں کے مقابلے کے لیے ہاتھی، بلکہ پرندوں سے اسے بُرے انجام سے دوچار کرکے نافرمانوں اور باغیوں کو پیغام دیا کہ وہ خدائی لشکر کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔یہ عبرت نام واقعہ اتنا عام ہوا کہ عرب اسے ہاتھیوں والا سال (عام الفیل)کہنے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ختم نبوت کے تاجدار امام الانبیاء سیدنا محمدﷺ کی پیدائش مبارک سے پچاس دن قبل پیش آیا تھا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ آنے والی مبارک ہستی کے دشمنوں کو اللہ اسی طرح نیست و نابود کرتا رہے گا۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ نے اپنے محبوب پاکؐ کا کلمہ بھی نصیب فرمایا اور اُن کے ذریعے قرآن مجید جیسی آخری مبارک آسمانی کتاب عطا فرمائی تاکہ ہم اس پر عمل پیرا ہو کر دُنیا و آخرت میں کامیاب ہوں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نہ قرآن پاک تلاوت کرتے نہ عمل پیرا ہوتے ہیں ۔اسی باعث ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں۔ اللہ ہمیں پکا مسلمان ، سچا پاکستانی اور بہت ہی اچھا مومن بنائے۔ (آمین)قرآن مجید نے اس دل چسپ، عبرت ناک اور وحشت اثر واقعے کو سورہ الفیل پارہ ۳۰ میں بیان فرمایا ہے۔ دشمنوں نے پورا زور لگایا کہ اسلام کو پھیلنے نہ دیا جائے۔ تب اللہ نے اپنے محبوب پاکﷺ کو یوں دلاسا دیا اور دل جوئی کی:’’کیا آپؐ نے نہیں دیکھا کہ کس طرح کا سلوک کیا ہم نے ہاتھیوں والوں سے(۱) اور ہم نے اُن کے دائو کو برباد نہ کردیا۔ (۲) اور ہم نے بھیجے ان پر پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ (۳) ہم نے گرائے ان پر کنکر پتھروں کے (۴) پس اس نے کردیا انہیں کھائے ہوئے بھس کی مانند (۵) آج اسی انجام سے دوچار ہونے والے ہیں اللہ کے باغی بشرطیکہ ہم صحیح ایمان والے بن جائیں‘‘۔نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زنپھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا گورنرگورنر کا عبرت ناک انجامجب اہلِ مکہ نے پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کونیست و نابود ہوتے دیکھا!پروفیسر ڈاکٹر محمد مزمل احسن شیخ تو گورنر ہوتا ہے، چاہے کسی ملک کا بھی ہو۔یہاں جس گورنرکاذکرہے ، اس کا نام تھا ابرہہ۔ ملک یمن میں اسے حبشہ کے بادشاہ نے گورنر مقرر کیا تھا۔ اس وقت جمہوریت نہیں تھی اور نہ ہی جماعتیں ہوتی تھیں کہ قومی خزانہ لُوٹ کھسوٹ کر اپنے بینک بھریں۔ لیکن اس وقت بینک بھی نہیں تھے۔ابرہہ نے دیکھا کہ ہر سال لوگ بیت اللہ کا حج کرنے ملک عرب کے شہر مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔ ابرہہ نے سوچا کہ کیوں نہ وہ بھی ایسا ہی عبادت خانہ بنائے۔ لوگ دور دور سے آئیں گے او ریوں اس کی مشہوری ہوگی ۔ ٹیکس لگائیں گے تو آمدنی بھی ہوگی۔ ہر دور کے لٹیروں کی سوچ یہی رہی ہے۔اب ابرہہ نے کثیررقم خرچ کرکے بڑا ہی خوبصورت عبادت خانہ صنعا شہر میں تعمیر کرایا۔ اس نے لوگوں کو حکم دیا کہ ہر سال وہاں آئو۔ لوگ کسی گورنر کے حکم پرتوعبادت نہیں کرتے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ کسی من چلے نے اس نقلی معبد میں غلاظت پھیلادی۔اسی دوران ایک عرب قافلہ صنعا کے باہر ٹھہرا۔سوئے اتفاق کھانا پکانے کی وجہ سے ایندھن کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ عمارت آگ کی لپیٹ میں جل کر راکھ ہوگئی۔اس پر گورنر ابرہہ مشتعل ہوا۔ سخت طیش میں اس نے سوچا کہ عربوں کا خانہ کعبہ ڈھا دیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی وہ فوج کے ساتھ ہاتھی لے کر مکہ کی طرف بڑھا۔ ہمارے رسول پاک سیدنامحمدﷺ کے دادا سردار عبدالمطلب اس زمانے میں خانہ کعبہ کے متولی تھے۔ انھوں نے حملے کی خبر سنی تو تباہی سے محفوظ رہنے کی خاطر اہلِ مکہ کو لے کر پہاڑ پر چڑھ گئے۔اتفاق یہ ہوا کہ سردار عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ کے سپاہیوں نے پکڑ لیے۔ انہوں نے ابرہہ سے جا کر اپنے اونٹ مانگے تو وہ بڑا حیران ہوا۔ اس پر آپ نے فرمایا ’’اونٹ اللہ کے فضل سے ہمارے ہیں لہٰذا وہی واپس طلب کر رہے ہیں۔ خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے، وہی اس کی حفاظت کرے گا۔‘‘بہرحال ابرہہ حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھاتو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ بھیجے جنھوں نے اپنی چونچوںاور پنجوں سے فوج اور ہاتھیوں پر کنکر برسائے۔ اللہ کی قدرت ہر کنکر سے فوجی اور ہاتھی یوں مرا جیسے مشین گن سے چھلنی کردیا گیا ہو۔یہاں تک کہ سوائے ایک سپاہی کے کوئی فوجی اور ہاتھی نہ بچا۔ اس آخری سپاہی نے بھی جب جا کر سارے لشکر کی بربادی کی خبر دی، تو اس کے سر پرمسلط پرندے نے کنکر گرایا ۔ وہ بھی ہاتھی سمیت اس طرح ہوگیا جیسے کھایا ہوا بُھس ریزہ ریزہ ہو جائے۔اللہ نے اپنے گھر کے دشمن تباہ کرنے کے لیے نہ فوجیں بھیجیں نہ لشکر، نہ ہاتھیوں کے مقابلے کے لیے ہاتھی، بلکہ پرندوں سے اسے بُرے انجام سے دوچار کرکے نافرمانوں اور باغیوں کو پیغام دیا کہ وہ خدائی لشکر کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔یہ عبرت نام واقعہ اتنا عام ہوا کہ عرب اسے ہاتھیوں والا سال (عام الفیل)کہنے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ختم نبوت کے تاجدار امام الانبیاء سیدنا محمدﷺ کی پیدائش مبارک سے پچاس دن قبل پیش آیا تھا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ آنے والی مبارک ہستی کے دشمنوں کو اللّٰہ اسی طرح نیست و نابود کرتا رہے گا۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ نے اپنے محبوب پاکؐ کا کلمہ بھی نصیب فرمایا اور اُن کے ذریعے قرآن مجید جیسی آخری مبارک آسمانی کتاب عطا فرمائی تاکہ ہم اس پر عمل پیرا ہو کر دُنیا و آخرت میں کامیاب ہوں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نہ قرآن پاک تلاوت کرتے نہ عمل پیرا ہوتے ہیں ۔اسی باعث ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں۔ اللہ ہمیں پکا مسلمان ، سچا پاکستانی اور بہت ہی اچھا مومن بنائے۔ (آمین)قرآن مجید نے اس دل چسپ، عبرت ناک اور وحشت اثر واقعے کو سورہ الفیل پارہ ۳۰ میں بیان فرمایا ہے۔ دشمنوں نے پورا زور لگایا کہ اسلام کو پھیلنے نہ دیا جائے۔ تب اللہ نے اپنے محبوب پاکﷺ کو یوں دلاسا دیا اور دل جوئی کی:’’کیا آپؐ نے نہیں دیکھا کہ کس طرح کا سلوک کیا ہم نے ہاتھیوں والوں سے(۱) اور ہم نے اُن کے دائو کو برباد نہ کردیا۔ (۲) اور ہم نے بھیجے ان پر پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ (۳) ہم نے گرائے ان پر کنکر پتھروں کے (۴) پس اس نے کردیا انہیں کھائے ہوئے بھس کی مانند (۵) آج اسی انجام سے دوچار ہونے والے ہیں اللہ کے باغی بشرطیکہ ہم صحیح ایمان والے بن جائیں‘‘۔نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زنپھونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا

انٹر نیٹ پر رقم کمانے کا سب سے آسان طریقہ رقم کمائی جا سکتی ہے؟

 
انٹر نیٹ پر رقم کمانے کا سب سے آسان  طریقہ رقم کمائی جا سکتی ہے؟
 
آجکل باکستان کے تمام بڑے اخبارات میں ”گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر کمائیں“ کی پرکشش آفرز کے اشتہارات نوجوان طبقے اور خاص کر پارٹ ٹائم آمدنی کے خواہشمند افراد میں خاصے ھاٹ ھیں۔ تیز رفتار لائف میں کامیابی اور آمدنی کے شارٹ کٹ ہر اس انسان کی کمزوری رہی ھے جسے خود پر بھروسہ کم اور دوسرے کا دیاآسان آئیڈیا اپنے مسائل کا فوری حل نظر آتا ہے۔ یوں ان اشتہارات پر رابطہ کرنے والے افراد ناتجربہ کار لوگوں کی بھینٹ چڑھے اور مفت کا کام ھزاروں روپے ممبر شپ یا رجسٹریشن فیس ادا کرکے بھی نہ سیکھ اور سمجھ سکے اور نہ کجھ کما پائے، پھر نتیجہ یہ نکلا انٹرنیٹ پر کمایا ھی نہیں جاسکتا، گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر کمائی ناممکن ھے، فراڈ ھے، دھوکہ ھے اور وقت کی بربادی۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ میں اعتماد اور یقین کیساتھ کہتا ھوں کہ گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر کمایا جاسکتا ھے!!! مگر کیسے یہ ھے وہ اہم سوال جسں کے لیے آج میں نے قلم اٹھایا ھے۔

اس سے قبل کہ میں اس سوال کا جواب دوں آپ کیلے یہ جاننا بہت ضروری ھے کہ آخر میں اتنے یقین کیساتھ یہ چیلنج کیوں کررھا ھوں اس کے پیچھے میرا دس سال کا تجربہ ھے جی ھاں سن 2000 میں غیر ارادی طور پر انٹرنیٹ بزنس میں آیا جب نیٹ استعمال کرتے ھوئے یہ سوال زھن میں آیا کہ آخر کوئی کیوں ويب سائٹ بناتا ھے، کیوں اتنی بڑی رقم لگا کہ مفت معلومات کے مواقع دیتا ھے اور سب سے اھم یہ کہ بنانے والے کو اس کا کیا فائدہ ھے یہ انٹرنیٹ کا ابتدائی دور تھا اور ایک اچھی ويب سائٹ کم از 5000 امریکن ڈالر میں تیار ھوتی تھی، اس کے علاوہ ڈومین اور ھوسٹنگ کے سالانہ 500 ڈالر اور ھر ماہ ويب سائٹ اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے ڈیولپر ڈیزائنر اور دوسرا ضروری اسٹاف بھی درکار ھوتا تھا جس پر ماہانہ خرچہ بھی لازمی ھے، سو میں اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں لگ گیا کہ وہ امریکن قوم جو ٹائم از منی کے فلسفہ پر کامل یفین رکھتی ھے اور کیوں اتنی بھاری رقم نو انکم پروجیکٹ پر لگا رھی ھے۔

سچ پوچھیں تو اس سوال کا جواب پانے میں مجھے دو سال لگ گئے اور صرف یہ ہی معلوم ھو سکا کہ تین قسم کی ويب سائٹ زیادہ بن رھی ھیں، ایک جو ایمیل اکاونٹ آفر کرتی ھیں اور اخبار یا میگزین کی طرز پر اپنی ويب سائٹ کے لیے بڑے اداروں کے اشتہارات سے لاکھوں کماتی ھیں، دوسری وہ ھیں جو پروڈکٹ معلومات فراھم کرکے کریڈیٹ کارڈ کے زریعے اپنی پروڈکٹ فروخت کررھی ھیں یعنی نیٹ شاپ جو ای بزنس کہلاتا ھے، اور تیسری وہ ھیں جو پروڈکٹ اوردیگر ٹائپ کی اشیا فروخت کرنے والی بڑی ويب سائٹ جیسے ایی بے، ایمزن وغیرہ کا ایفیلی ایٹ ممبر بن کر اپنی ويب سائٹ پر ان کی پروڈکٹ مختلف انداز سے پرموٹ یا پببلییسٹی کرکے فروخت کرتے ھیں اور %50 تک کمیشن حاصل کرتے ھیں۔ یہ تھی جاننے کی ابتدا جس نے یہ سمجھایا کہ انٹرنیٹ پر کمایا جاسکتا ھے اور یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، اس کے بعد انٹرنیٹ پر کمانے کی ایک عجب دنیا متعارف ھوتی گئ۔۔۔ آمدنی کے نئے باب روشن ھوتے رھے۔۔۔۔ ترقی کے نت نئے راستے معلومات میں اضافہ اور سوچ کو وسیع تر کرتے گئے۔۔۔۔

ایفیلی ایٹ پروگرام ک بعد میرے علم میں آیا ایک سی پی اے پروگرام بھی ھے یعنی کوسٹ پر ایکشن اس پروگرام کے تحت اپنی ويب سائٹ پر بینر لگائیں جس پر نئی نئی آفز آرھی ھونگی اور جو اس بینر پر کلک کرکے ويب سائٹ پر جا کہ خریدای کرے یا فارم فل کرے گا تو کچھ فیصد رقم آپ کو بھی ملتی ھے، اس ھی طرح ایک سی پی ایم پروگرام بھی تھا یعنی کوسٹ پر تھاوزینڈ مائل اس پروگرام کے تحت اپنی ويب سائٹ پر بینر لگائیں اور بینر ایک ھزار بار شو ھونے بر 10 تا 50 امریکی سینٹ ويب سائٹ آنر کو ادا کیے جاتے تھے، پھر ایک نیا پروگرام سی ٹی آر، سی پی سی، سی پی آئی، سی پی ڑی وغیرہ کے نام سے متعارف ھوئے ھر پروگرام میں ایک ويب سائٹ کا ھونا لازمی تھا جس پر کوئی بھی ڈالر کمانے والا پروگرام ممبر بن کہ چلایا جائے اور سو ڈالر ھونے پر پاکستان میں بیٹھے گھر کے ایڈرس پر بزریعہ چیک رقم وصول کی جائے۔ اس دور میں کمیشن جنکشن، ڈبل کلک، ایڈورٹائز، کلک بینک، ڈائریکٹ لیڈ، ویلیو کلک، فاسٹ کلک وغیرہ گھر بیٹھے انٹرنیٹ پراپنی ويب سائٹ سے ڈالر کمانے کے حوالے سے مقبول ترین تصور کی جاتی تھیں۔

سن 2003 گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر ڈالر کمانے والوں کیلیے گولڈن سال کہا جاسکتا ھے جپ گوگل نامی ایک نئے سرچ انجن نے دو انوکھے پروگرام عوامی سطح پر متعارف کروائے گوگل ايڈ سينس اور گوگل ایڈورڈز، گوگل نے ان دونوں پروگرام کے طریقے بہت فرینڈلی رکھے جس کو اپنا اشتہار چلانا ھے گوگل ایڈورڈز کو رقم دے اور جس کو کمانا ھے وہ اپنی ويب سائٹ پر گوگل ايڈ سينس کا کوڈ لگائے، اشتہار پر کلک لگا اور ويب سائٹ مالک کو 2 سینٹ سے 5 ڈالر تک معاوضہ مل گیا، یوں جہاں اکاوئنٹ میں سو ڈالر ھوئے رقم بحفاظت آپ تک پہنچ گئی۔ گوگل ايڈ سينس کیا آیا لاکھوں ويب سائٹ آن لائن ھوگیں، گوگل نے موقع سے پورا فائدہ اٹھایا اور جو لوگ ويب سائٹ بنانا نہیں جانتے تھے ان کے لیے بلاگ کے نام سے ایک ایسی پروڈکٹ متعارف کی جس میں سب کچھ آٹو میٹیڈ تھا بس جو موضوع اچھا لگےاس پر لکھیں اور صرف پوسٹ کا بٹن دبائیں اور وہ پبلش ھو جائے گا نہ ويب سائٹ بنانے کی ضرورت نہ ڈومین ھوسٹنگ کا ایشو، اسکے بعد تو انٹرنیٹ پر کمانے کی دوڑ میں وہ اسٹوڈنٹ بھی آگئے جو رقم اورتجرب نہ ھونے کی وجہ سے ويب سائٹ نہیں بناسکتے تھے... قصہ مختصر یہ کہ گوگل کا جادو سر چڑہ کہ بولا اور انٹرنیٹ پر ھر ایک نے اپنی صلاحیت کے مطابق گوگل ايڈ سينس کے زریعے خوب کمایا، دھیرے دھیرے گوگل ايڈ سينس جیسی کئی ایک کمپنیاں مارکیٹ میں آئیں اور ويب سائٹ آنرز کے لیے کمانے کے نئے راستے متعارف کرانے لگیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ھے۔

یہ ھے وہ دس سالہ سفر جو انٹرنیٹ پر کمانے کی جستجو سے شروع ھوا اور آج سو فیصد میری آمدنی کا واحد زریعہ ھے یعنی آج میرا گھر، میرا آفس، میرا اسٹاف کے تمام تر اخراجات صرف انٹرنیٹ سے حاصل آمدنی سے ھی ھوتے ھیں۔ کیا یہ ثبوت اس بات کےلیے کافی نہیں کہ گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر کمایا جاسکتا ھے۔
مگر کیسے!!!
انٹرنیٹ پر کمانے کے کئی ایک طریقے اور کچھ بنیادی اصول بھی ھیں، عموما کام کرتے ھوے نہ ان اصولوں کو جاننے ک کوشیش کی جاتی اور نہ ھی اس کام کی مختصر تعلیم حاصل کی جاتی ھے، جب کہ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرے گا کہ ھر ھنر اور پیشہ کی تعلیم ضروری ھے، عمومی خیال یہ ھے کہ ھر انٹرنیٹ استعمال کرنے والا باآسانی کما سکتا ھے، جبکہ صحیح خیال یہ ھے کہ ھر وہ کما سکتا ھے جو انٹرنیٹ پر کام کے بنیادی اصولوں کا علم اور خیال رکھتا ھو۔
ایک خوشخبری سن لجیئے کہ انٹرنیٹ پر کمانے کے 100 سے زائد راستے ھیں اور سب کے سب قابل عمل مگر ابتدا میں آپ کو گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر کمانے کے وہ راستے بتائے جائیں گئے جن پر محنت اور سرمایہ کم اور پارٹ ٹائم آمدنی بہتر ھو۔ اس میں سہرفہرست گوگل ايڈ سينس ھے، جس پر معمولی انوسمینٹ کے ساتھ اگر آپ روزانہ 1 تا 5 گھنٹے کام کیا جائے تو اس ھی مطابق 5 تا 15 ھزار پاکستانی روپے کمائے جاسکتے ھں۔

شاید ہی دنیا کا کوئی شہر ایسا ہو جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہ ہو اور شاید ہی ایسا کوئی انٹرنیٹ یوزر ہو جو گوگل کے بارے میں نہ جانتا ہو۔ انٹرنیٹ کی دنیا پر بادشاہی کرنے والے سرچ انجن کو دنیا ’’گوگل‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ گوگل نے اپنی شروعات سے ہی نیٹ پر موجود چیزوں میں جدت لائی۔ سرچنگ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا اس کے بعد گوگل نے سن 2003 انٹرنیٹ پر گھر بیٹھے کمانے والوں کیلیے گوگل ايڈ سينس متعارف کروایا، جس کا طریقہ کار بہت سادہ رکھا گیا بسں ايڈ سينس جوائن کریں اپنی ويب سائٹ پر گوگل ايڈ سينس کا کوڈ لگائیں اور کمائیں۔
گوگل ایڈسینس پر آپلائی کرنے کے لیے کیا چیزیں درکار ہیں؟
گوگل ایڈ سینس کے سن 2010 نئی ٹرمز اینڈ کنڈیشن پالیسی کے مطابق ایڈ سینس اکاوئنٹ آپلائی کرنے کیلئے جن چیزوں کاہونا بے حد ضروری یا لازمی ہے وہ درج ذیل ہے:
* گوگل ایڈسینس کے نئی ھدایت کے مطابق ذاتی ڈومين ھو
* ایک عدد پروفیشنل ڈیزائنڈ ویب سائٹ یا پروفيشنل لک بلاگ ھو
* انگریزی میں تحریر کردہ بہترین معلواتی یا تفریحی مضامین، تصاویر و دیگر مواد ھو
* ویب سائٹ گوگل سرچ انڈیکس اور دیگر ٹاب سرچ انجن میں موجود میں شامل ھو
* سائٹ نئے دلچسپ مضامین کیساتھ ڈيلي اپ ڈيٹ ہوتی ھو
* اس پر ڈیلی اوریجنل ٹريفک آتا ھو
یاد رہے گوگل ایڈسینس نے اس ھی سال اپنی پالیسی خاصی سخت کردی ھے اب بلاگر کے زریعے اکاوئنٹ آپلائی کا پرانا آسان راستہ بند ھوچکا ھے اس لیئے اوپر درج تمام چیزوں اب لازمی ھیں۔
گوگل ایڈسینس اکاوئنٹ آپلائی کرنے کا درست طریقہ
گوگل ایڈسینس کا اکائونٹ حاصل کرنے کیلئے ترتیب وار طریقہ درج ذیل ہے۔
http://www.google.com/adsense
اس لنک پر وزٹ کریں
جو پیج کھلے گا اوپر لکھا ہوگا
Sing Up now
وہاں پر کلک کرکے آپ اکائونٹ حاصل کرنے والے فارم تک پہنج جائیں گئے۔
گوگل ایڈسینس کا اکائونٹ فارم بہت سادہ اور آسان ھے
Website URL
اس باکس میں اُس ویب سائٹس کا ایڈریس لکھیں جس کیلئے آپ آپلائی کرنا چاہتے ہوں۔ ایک سے زیادہ ویب سائٹس ہونے کی صورت میں کسی بھی بہترین ویب سائٹ کا انتخاب کرکے وہی اس باکس میں لکھیں۔
Website language
اس باکس میں انگلش کو سلیکٹ کریں
Account type
اس باکس میں
Individual
کو سلیکٹ کریں
Country
اس باکس میں
PAKISTAN
کو سلیکٹ کریں
Payee name

اس باکس میں اپنا بالکل وہ نام جو آپ کے شناختی کارڈ میں موجود ہو لکھیں ﴿کیونکہ ہر ماہ آپ کی پیمنٹ ویسٹرن یونین کے ذریعے سے آئے گی جو کہ آپ کے نام کو شناختی کارڈ سے میچ کرنے کے بعد ویسٹرن یونین کا عملہ آپ کو دے گا﴾ اس کے بعد اپنا ایڈریس شہر پن کوڈ لکھیں۔ یاد رہے! نام اورایڈریس لکھتے وقت محتاط رہیں کیونکہ اگر یہ اور آپ کا شناختی کارڈ میں موجود ایڈریس ایک جیسا نہیں ہوگا تو آپ کو پیمنٹ حاصل کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جب آپ فارم مکمل پر آن لائن سمبٹ کر یں گے تو آپ کا ایمیل ایڈرس مانگا جائے گا کوشیش کریں اپ اپنے زاتی ڈومین کا ہی ایمیل ایڈرس سمبٹ کریں جس پر آپ کو تھینکس کا ایک ایمیل ملے گا اور کچھ ہی دیر بعد آپکو گوگل کی طرف سے ایک ای میل ملے گی جس میں آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کا فارم جمع کردیا گیا ہے اور آپ کی سائٹ چیک کرکے جلد ہی آپ کا اکائونٹ ایکٹیو یا آپ کی درخواست مسترد کردی جائے گی۔چند دنوں سے چند ہفتوں کے اندر آپ کو گوگل کی طرف سے ایک اور ای میل ملے گی جس میں آپ سے کہا جائے گا کہ آپ کی ویب سائٹ منظور کردی گئی ہے اور آپ کو ایڈسینس اکائونٹ مل چکا ہے۔ برائے مہربانی اپنی سائیٹ پر ایڈسینس کوڈ لگائیں۔

گوگل ایڈسینس کا اکائونٹ بلاک ہونے کی چند بڑی وجوہات
گوگل اپنے صارفین کو ہر قسم کی سہولیات مہیا کرتا ہے۔ ایک بہترین آمدنی ، ایک بہترین سپورٹ سسٹم اور بھی بہت کچھ، لیکن اس کیلئے بہتر ہوگا کہ آپ بھی گوگل کے ساتھ ایماندارانہ رویہ اختیار کریں۔ ہماری عام زندگی کا اصول ہوتا ہے کہ ’’جو بوئو گے ، وہی پائو گے‘‘ اسی پس منظر میں اگر آپ گوگل کے ساتھ بددیانتی کریں گے اور گوگل کو دھوکہ دینے کی کوشش کریں گے تو پھر آخر میں آپ ہی کو پچھتانا پڑے گا۔
میرے اکثر پاکستانی بھائی اپنی ویب سائٹ پر کئی بڑی غلطیاں کرتے ہیں جن سے ان کے اکائونٹس بلاک ہوجاتے ہیں۔ جبکہ اکثر جعلی کلک کی وجہ سے اکاؤنٹ گنوا دیتے ھیں. یہاں ہم ان وجوہات کا جائزہ لیں گے کہ وہ کون کون سے وجوہات ہیں جو ایڈسینس اکائونٹ کے بلاک ہونے کے باعث بنتی ہیں۔

گوگل کی منع کردہ آئٹم لسٹ میں سے کوئی بھی چیز ایڈورٹائز نہ کریں۔

* اپنی ویب سائٹ پر کہیں بھی یا کسی اور جگہ پر کسٹمرز سے ایڈز پر کلک کرنے کا نہ کہیں۔

* کبھی بھی گوگل ایڈز کے ساتھ کی اور ادارے کے اشتہارات کو ایک ساتھ ایک ہی پیج پر پبلش نہ کریں۔
* اپنے گوگل اشتہار رجسٹریشن پیج، کنفرمیشن پیج یا پھر شکریہ کے پیجز پر ہرگزنہ لگائیں۔
* کبھی بھی اپنی سائٹ پر موجود اشتہارات پر خود کلک نہ کریں۔ یہاں تک کہ چاہے آپ وہ ویب سائٹ چیک کرنا چاہیں یا آپ وہ پروڈکٹ خریدنے کا سوچ رہے ہوں۔
* گوگل ایڈز کے ارد گرد کبھی بھی دھوکہ دینے والے الفاظ نہ لکھیں۔ جیسے اسے کلک کریں وغیرہ کیونکہ گوگل بڑی آسانی سے ان تمام الفاظ کو سمجھ سکتا ہے جو کہ ایڈز کے ارد گرد موجود ہوتے ہیں۔
* گوگل ایڈسینس کے کوڈ کو کبھی بھی اپنے طور پر تبدیل نہ کریں۔ صرف اُن پیرا میٹرز کو ہی چینج کریں جنہیں چینج کرنے کی گوگل اجازت دیتا ہے۔

گوگل ایڈسینس سے واقعی گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر کمایا جاسکتا ھے

یاد رہے! ایڈسینس ایک آن لائن کاروبار کا نام ہے اور ہر کاروبار چاہے وہ آن لائن ہو یا آف لائن جمنے میں ٹائم لیتا ہے۔ ایڈسینس کی مثال ایسی سمجھیں کہ آپ ایک ادارے میں بطور ملازم لگ جائیں تو آپ کی ترقی پہلے ہی مہینے نہیں ہوسکتی بلکہ آپ کے کام کو دیکھتے ہوئے چار چھ مہینے میں آپ کو ترقی دی جاتی ہے۔ ایڈسینس بھی ایک آن لائن ملازمت ہے۔ اس میں ہر نئے آنے والے کو شروع کے چند ماہ میں کچھ نہیں مل سکتا لیکن جب ایک دفعہ پیمنٹ مل جائے تو یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہتا ہے اور ایک نہ رکنے والا سلسلہ بن جاتا ہے۔
امید ہے آپ میری ان مثالوں اور تجربات پر مبنی باتوں کو سمجھ چکے ہوں گے اور صبر اور تحمل سے ایڈسینس پر کام کرنا شروع کردیں گے۔
گوگل ایڈسینس سے ھر ماہ کتنا کمایا جا سکتا ھے
آپ اگر بھرپور توجہ دیں اور اگر آپ روزانہ 1 تا 5 گھنٹے کام کیا جائے تو اس ھی مطابق 5 تا 15 ھزار پاکستانی روپے ماھانہ کمائے جاسکتے ھں۔ اس بات کو زھن میں رکھیں گوگل ایڈسینس سےاس ھی پاکستان میں لوگ ایک ھزار ڈالر سے زائد ماھانہ کما رھے ھیں۔